قیمتی باتیں

قیمتی باتیں جو روزمرہ کے حالات سے متعلق ہیں، آپ کو دانشمندانہ، اصلاحی، مذہبی، اصلاحی کہانیاں ملیں گی جنہیں اس ویب سائٹ پر آزمایا گیا ہے۔ جزاک اللہ

آخر الأخبار

جاري التحميل ...

وہ گورنمٹ کے محکمے کا آفیسر تھا

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں

وہ گورنمٹ کے محکمے کا آفیسر تھا اسکا تبادلہ لاہور سے کراچی ہوا ۔ بزریعہ ریل گاڑی اس کو کراچی جانا تھا ... چنانچہ وہ سٹیشن پہنچا اور ٹکٹ خرید لی۔ گاڑی جس لائین پہ کھڑی تھی اسکو وہاں پہنچنا تھا اس نے سامان اٹھانے کے لیے قلی کو بلایا اور کہا بھئ میرا سامان گاڑی کو پہنچا دو، قلی نے سامان اٹھایا اور صاحب کے پیچھے پیچھے ہولیا ۔ چونکہ وقت بے حد کم تھا اس لئے صاحب تیزی سے پیلٹ فارم کی طرف چل رہا تھا ۔ پیچھے سے قلی بھی سامان اٹھا کر بھاگا وہ آدمی تیز تیز چل کر پلیٹ  فارم پر بوگی کے دروازے پہ جلدی پہنچ گیا ۔ لیکن بھیڑ چونکہ زیادہ تھی اسلیئے قلی سامان سمیت بھیڑ ہی میں پھنس گیا صاحب بار بار راستے کو دیکھ رہے تھے لیکن قلی کا نام و نشان بھی نہ تھا اتنے میں گارڈ وسل دی اور ٹرین چلنی شروع ہوئی ۔ صاحب اس پہ چڑھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ پیچھے اسکا سامان رہ جانا تھا ۔ بالآخر اسکو ٹرین چھوڑنی ہی پڑی ۔
گاڑی سے رہ جانے کی وجہ سے صاحب کو بہت افسوس ہوا کہ میرا سارا پروگرام  ڈسٹرب ہوگیا ۔ گاڑی دور جاتی رہی اور مسافر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے لگے جب پیلٹ فارم میں لوگوں کا رش کم ہوا تو سامنے سے قلی پسینے سے شرابور سامنے اٹھائے ہوئے صاحب کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا ۔ قلی قریب آیا تو اسکے چہرے پہ افسوس اور شرمندگی کی واضح آثار موجود تھے 
" صاحب ...!!! 
مجھے معاف کر دیں میں نے وقت پہ پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں وقت پہ پہنچ نہیں پایا "
صاحب غصہ تو بہت تھے لیکن سوچا گاڑی تو ویسے بھی مس ہوگئی ہے اب اگر میں اس قلی کا قتل بھی کر دوں تو بھی گاڑی نے تو واپس آنا   نہیں لہذا غصہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
" کوی بات نہیں ... اللہ کو ایسے منظور تھا تو ایسا ہی ہونا تھا اسکی مرضی کو کون ٹال سکتا ہے چلو میں  آج نہ سہی کل چلا جاونگا "
صاحب نے پیار سے مسکرا کر جواب دیا... جیسے ہی قلی نے یہ سنا تو اسکے چہرے پہ بشاشت آئی اور سامان اٹھا کر کہا 
" لائیں میں آپکا سامان اٹھا لیتا ہوں یہاں قریب ہی ریسٹ ہاوس ہے وہاں لیے چلتا ہوں ۔"
قلی نے ریسٹ ہاوس میں صاحب کا سامان رکھا اور باہر نکل آیا ۔ قلی کو چونکہ علم تھا کہ صاحب نے کل پھر اسی سٹیشن سے جانا ہے لہذا وہ تمام رات سٹیشن پہ ہی رہا ۔
اگلے دن صاحب مقررہ وقت سے پہلے ہی سٹیشن پہنچا ۔ سامنے  وہی قلی کھڑا تھا اس نے بھاگ کر  گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے کہ دونوں بہت قریبی عزیز ہوں اور سامان اٹھاکر کہا " صاحب آپکی ایڈوانس بکنگ بھی میں کرںچکا ہوں چلیں آئیں "
قلی نے سامان سر پہ رکھا اور دونوں پلیٹ  فارم کی طرف جانے لگے گاڑی کے پاس پہنچ کر صاحب نے بٹوے سے پیسے نکال کر قلی کو ادا کرنے چاہے تو قلی نے لینے سے انکار کردیا "
نہیں صاحب میں پیسے نہیں لوں گا کیونکہ میری ہی غلطی کی وجہ سے آپکی ٹرین مس ہوئی ہے "
صاحب نے بڑی کوشش کی کہ کم از کم  وہ ٹرین کا کرایہ تو ادا کردے لیکن قلی کسی صورت نہ مانا قلی نے صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے پیسے نہ دیں گے تو میں زیادہ خوش رہوں گا....
قلی نے اسکو گاڑی میں بٹھا دیا پاس بیٹها گپ شپ لگائی پهر باہر آکر کھڑکی کھولی اور وہیں سے کھڑے کھڑے صاحب سے باتیں کرنے لگا ۔ قلی بار بار  اس کو احسان مندانہ نظروں سے  دیکھ رہا تھا اتنے میں گاڑی چلنا شروع ہوئی تو وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر صاحب سے باتیں کرنے لگا ٹرین کی رفتار تیز ہوئی تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر صاحب کو رخصت  کر رہا تھا ۔ صاحب نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اس کو الوداع کا جواب دیا اسکو محسوس ہوا کہ اس محبت مان اور چاہت سے تو کسی اپنے نے بھی اس کو رخصت نہیں کیا تھا۔ ٹرین چلی گی تو قلی نے سوچا کہ صبح کا ناشتہ نہیں کیا چلو ناشتہ ہی کر لوں  ۔ جیب میں ہاتھ ڈال تو جیب میں کئ نوٹ نکل آئے۔جب گنے تو  پتہ چلا کہ یہ تو پورے 3 ہزار روپے تھے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور رو کر صاحب کو دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صاحب نے غیر محسوس انداز میں 3 ہزار روپے اسکی جیب میں ڈال دیئے تھے۔ 
بیس سال بعد صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں لکھا " اس قلی کی وجہ سے لیٹ ہونے کا جو غم تھا وہ تو اسی رات کو ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اس کی محبت بھری الوداعی نظر آج بیس سال گزر جانے بعد بھی میرے دل میں ٹھنڈک پیدا کردیتی ہے مجھے ٹرین لیٹ ہونے کا غم و افسوس نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محبت بھرا انسان میں سٹیشن پہ چھوڑ آیا "

یہ بندہ گالیاں دے کر بھی اپنے غصے کا اظہار کرسکتا تھا اور قلی سن کر چلا جاتا ۔ لیکن صاحب نے معاف کردیا ۔ معاف کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلی نے احسان مانا۔ اس نے لیٹ ہونے کی وجہ سے سامان واپس اٹھا کر ریسٹ ہاوس بھی چھوڑا اور صبح اسکا ایڈوانس ٹکٹ بھی لیا اور واپس سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا دعائیں بھی دی اور محبت سے رخصت بھی کیا ، 
جی ہاں جب انسان دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیتا ہے تو انکی غلطیوں کی تکلیف تو یاد نہیں رہتی لیکن معاف کرنے کا مزہ زندگی بھر انسان کو محسوس ہوتا رہتا ہے ۔

منقول۔

مصنف کے بارے میں

IRFAN SHAH

التعليقات


ہمیں بلائیں

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ، ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں ، صرف بلاگ ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لئے اپنا ای میل درج کریں تاکہ آپ کو نیا بلاگ پہلی بار موصول ہوگا ، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کرکے پیغام بھیج سکتے ہیں۔ ...

Translate

Popular posts

صفحہ دیکھے جانے کی کل تعداد

تمام حقوق محفوظ ہیں

قیمتی باتیں