قیمتی باتیں

قیمتی باتیں جو روزمرہ کے حالات سے متعلق ہیں، آپ کو دانشمندانہ، اصلاحی، مذہبی، اصلاحی کہانیاں ملیں گی جنہیں اس ویب سائٹ پر آزمایا گیا ہے۔ جزاک اللہ

آخر الأخبار

جاري التحميل ...

دینِ اسلام میں کون سا عمل افضل یا اہم ہے

📿  *دینِ اسلام میں کون سا عمل افضل یا اہم ہے؟* 📿

اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح مادی اشیا آگ ، پانی ، ہوا وغیرہ میں الگ الگ اثرات اور خصوصیات رکھی ہیں۔ اسی طرح اعمال میں بھی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے الگ الگ اثرات اور خصوصیات رکھی ہیں۔ چنانچہ جس طرح آگ میں گرمی اور پانی میں ٹھنڈک کی خاصیت ہے اسی طرح اچھے اعمال کے اچھے اور برے اعمال کے برے ا ثرات ہواکرتے ہیں ۔
اسلام نے جس طرح برے عقائد اور برے اعمال کے گھناؤنے پن ، ہولناک نتائج اور سخت سزا سے آگاہ کیا ہے ، اسی طرح صحیح عقائد اور نیک اعمال کی خوبیوں کو اجاگر کرکے ان کے فوائد اور انعامات بتائے ہیں۔چنانچہ جہاں اس نے شرک،قتل ، زنا ،جھوٹ اور دھوکہ سے روکا ہے ۔ وہیں خوف خدا ، نماز ، روزہ ، خیرات اور سچائی پر اُ کسایا ہے۔
اگرچہ تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں میں یہ تاثیر ہے کہ وہ اخلاق کی درستگی نفس کی اصلاح اور ایمان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے قُرب کا ذریعہ بنتے ہیں ، لیکن ہر ایک عمل کی کچھ انفرادی خصوصیات اور اثرات بھی ہوتے ہیں جو کسی دوسرے عمل میں نہیں پائے جاتے۔اسی لیے اگر کسی خاص عمل کے بارے میں اس کی انفرادی خصوصیات اور تاثیر کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جائے کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں  اور یہ سب سے بہتر اور اہم عمل ہے تو غلط اور بے جا نہ ہوگا۔ چنانچہ یہی طریقہ شریعت مطہرہ میں اختیار کیا گیا ہے کہ اکثر مواقع میں کسی خاص مصلحت ، خصوصیت اور اثر کی وجہ سے یا ذاتی حیثیت سے کسی ایک عمل کو سب اعمال سے افضل یا اہم بتایا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بحیثیت مفضول باقی اعمال میں کوئی اجروثواب نہیں اس لیے ان کو ترک کردیا جائے۔ ذیل میں چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس اصول کو صحیح طریقہ سے سمجھا جا سکے. 

(۱) حضرت عبد اللہ تعالیٰ بن مسعود  فرماتے ہیں کہ میں نے حضوراقدسﷺ سے دریافت کیا کہ (دینی)اعمال میں کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا۔’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ 
پھر میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟
  آپﷺ نے فرمایا:’’ماں باپ کی خدمت کرنا ۔‘‘
  میں نے عرض کیا اور اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟
  آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔      (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
اس حدیث میں حضورﷺ نے نماز پڑھنے کو والدین کی خدمت اور جہاد سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔
(۲) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ تعالیٰ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟
آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
دریافت کیاگیا اس کے بعد افضل ترین عمل کون سا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا ۔
پھر دریافت کیا گیا ، اس کے بعد سب سے افضل عمل کون سا ہے؟
فرمایا حجِ مقبول۔            (بخاری ومسلم)
اس حدیث میں ایمان کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ بتایا گیا ہے اور پھر اس کے بعد حجِ مقبول۔ 
حضرت ابو قتادہ  سے روایت ہے کہ حضوراقدسﷺ ایک مرتبہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا اور ایمان لانا تمام اعمال میں سب سے افضل ہے۔     (بخاری ومسلم)
(۳) حضرت عبد اللہ تعالیٰ بن عمرو  راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ کون سا اسلام(یعنی اسلامی اعمال میں کون سا عمل)افضل اور بہتر ہے؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ کہ تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور اپنے جاننے والوں اور اجنبیوں دونوں کو سلام میں پہل کرو۔   (بخاری ، مسلم)
اس حدیث میں لوگوں کو کھانا کھلانا اور سلام میں پہل کرنا سب سے افضل اعمال بتائے گئے ہیں ۔

(۴) حضرت ابو امامہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔  
   (مسند احمد ، ترمذی ، ابو داؤ د) 
حضرت عثمان  راوی ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:تمام لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کریم کا علم حاصل کرے اور دوسرے لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔      (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمرو  سے روایت ہے کہ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے: کہ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔
حضرت ابوسعید خدری  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ بہترین شخص کون ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو ۔        (ترمذی)
ان چاروں حدیثوں میں چار الگ الگ اشخاص کو سب سے بہتر شخص قرار دیا گیا ہے، حالانکہ سب کا عمل جداجدا تھا۔
(۵) حضرت انس  بیان کرتے ہیں کہ حضوراقدسﷺ نے حضرت ابوذر  کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:اے ابوذر! میں تمہیں دو ایسی خصلتیں بتاؤں جو بظاہر بہت ہلکی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ کے میزان میں وہ بہت بھاری ہیں۔حضرت ابوذر نے عرض کیا ضرور بتائیے ۔ 
آپﷺ نے فرمایا زیادہ خاموش رہنا اور اچھے اخلاق ۔ پھر آپﷺ نے قسم کھاکر فرمایا:مخلوقات کے اعمال میں یہ دونوں چیزیں بے مثل ہیں ۔      (شعب الایمان بیہقی)
اس حدیث میں زیادہ خاموش رہنے اور حسنِ اخلاق برتنے کو اچھائی کے اعتبار سے بے مثال اعمال بتلایا گیا ہے۔
(۶) حضرت ابو امامہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کسی ایسے عمل کا حکم فرمائیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے خوب نفع دے۔
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا(کثرت سے)روزے رکھا کرو۔ اس کی مثل کوئی دوسرا عمل نہیں۔     (نسائی)
اس حدیث میں روزے کو بے مثال (اچھا)کام بتایا گیا ہے۔

*(۷)* ایک طویل حدیث میں ہے کہ حضورِ اقدس ﷺنے قسم کھا کر فرمایا: ایک صبح یاایک شام اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کےلیے نکلنا دنیا اور جوکچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے کےلیے جہاد کی صف میں کھڑے ہونا ساٹھ سالہ نماز سے بہتر ہے ۔    
 (مسند احمد عن ابی امامہ  ) 

ایک دوسری روایت میں آ تاہے کہ ایک گھڑی اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنے کےلیے صف میں کھڑا ہوناساٹھ سالہ عبادت سے بہتر ہے۔    (کنزالعمال عن ابی ہریرہ  ) 
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنے کو عام زندگی میں اللہ تعالیٰ کی کسی بھی بڑی عبادت سے بڑھ کر عبادت قرار دیاگیا ہے ۔ 
*(۸)* حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا :
”کسی بیوہ عورت یا مسکین شخص کےلیے دوڑ دھوپ کرنے والا شخص (اجروثواب میں )اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص جیسا ہے“۔راوی کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوتا ہے کہ آپﷺنےیہ بھی فرمایا تھا کہ یہ شخص اس شخص کی طرح ہے جو ساری ساری رات کھڑا رہ کر مسلسل اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہتا ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو بلا ناغہ ہمیشہ روزے رکھتارہتاہے ۔ 
ٹھیک یہی فضیلت احادیث میں اس شخص کی بھی بیان کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتا ہے۔     (بخاری و مسلم)

*(۹)* حضرت ابن عباس  بیان کرتے ہیں کہ حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: اعتکاف کرنے والے کی تمام نیکیاں بدستور اسی طرح لکھی جاتی ہیں جس طرح کہ وہ نیکیاں (عملاً) اب بھی کر رہا ہو۔     
  (ابن ماجہ) 
یعنی کوئی شخص مریضوں کی عیادت اور ان کی خدمت کرتاتھایا غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لیے دوڑ دھوپ کرتا تھا یا تعلیم وتبلیغ یا جہاد کے لیے جاتا تھا۔اب اعتکاف کی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کر سکتا، تو ایسے شخص کے لیے بدستور وہ ساری نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی ، جن کو وہ کرنے کا عادی تھا ۔ اس حدیث سے اعتکاف کی بہت فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔ 
*(۱۰)* ایک حدیث میں حضرت ابن عباس سے روایت ہےکہ جو شخص اپنے مسلمان  بھائی کے کسی کام اور حاجت میں کوشش کرے اس کے لیے یہ سعی دس برس کے اعتکاف سے افضل اور بہتر ہے۔      
 (طبرانی فی الاوسط باسناد جید ، مجمع الزوائد)
اس حدیث میں کسی محتاج کی ضرورت کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کو دس سالہ اعتکاف کرنے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک معتکف کے لیے وہ تمام نیکیاں بدستور لکھی جاتی ہیں جو نیکیاں بوجہ اعتکاف اس سے فوت ہو جاتی ہیں ۔

*(۱۱)* حضرت ابو درداء  راوی ہیں کہ *حضورﷺ* نے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں بہت پاکیزہ ہے اور تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور اس جہاد سے بھی بہتر ہے جس میں تم دشمنانِ اسلام کو قتل کرو یا وہ تمہیں شہید کریں ۔ 

صحابہ نے عرض کیا۔ضرور بتلائیں ! آپﷺ نے فرمایا: وہ قیمتی عمل اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا ذکر کرنا ہے ۔         (مسند احمد ، ترمذی)
حضرت عبداللہ بن بسر  سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حضورﷺ سے دو سوال کیے تھے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ یا رسول اللہ!ﷺ اعمال میں کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے اس حالت میں موت آئے کہ تیری زبان ذکراللہ سے تر ہو۔
   (مسند احمد ، ترمذی)
 
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ:
” بندوں میں سب سے افضل اور بہتر کون لوگ ہیں ؟ اور قیامت میں کن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ درجہ ملنے والا ہے؟“ آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے والے بندے اور زیادہ یاد کرنے والی بندیاں ۔        (مسند احمد ، ترمذی)

ایک حدیث میں آ تا ہے کہ *حضور اقدسﷺ* نے ارشاد فرمایا: بہترین ذکر آہستہ ذکر کرنا ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو آدمی کی ضرورت کے لیے کافی ہو۔ 
اس حدیث میں خفیہ ذکر کو افضل بتایا گیا ہے۔ بلاشبہ اس طرح ذکر کرنا اپنی ذاتی
 حیثیت میں بہت اونچا درجہ رکھتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی یادکا تصور کے ساتھ ہو ورنہ وہ ذکرِ خفی کے بجائے وردِ خفی بن جائے گااور محض ذکر کی صورت اور ڈھانچہ رہ جائے گا۔
  ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ مجنون کہنے لگیں ۔(مسند احمد ، ابو یعلی)

ایک دوسری حدیث میں ہے ایسا ذکر کرو کہ منافق لوگ تمہیں ریا کار کہنے لگیں ۔ 
(طبرانی)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر ایسے کرنا چاہیے کہ اسے دوسرے لوگ بھی سنیں۔ورنہ مجنون اور ریاکار کہنے کا کیا معنی؟ بلاشبہ ذکرِ جہری کی کچھ تاثیرات اور خصوصیات ایسی ہیں جو آہستہ ذکر میں نہیں ۔مثلاً یہ ذکر دل کو بیدار کرنے اور دل میں یادِ حق پیدا کرنے کا بڑا مضبوط ذریعہ ہے ، بشرطیکہ دوسروں کی ایذا کا سبب نہ بنے اور نہ ہی جہر اتنا زیادہ ہو کہ بے ادبی معلوم ہوتی ہو۔ 

ان تمام احادیث سے ذکر اللہ کی غیر معمولی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔ 

مصنف کے بارے میں

IRFAN SHAH

التعليقات


ہمیں بلائیں

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ، ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں ، صرف بلاگ ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لئے اپنا ای میل درج کریں تاکہ آپ کو نیا بلاگ پہلی بار موصول ہوگا ، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کرکے پیغام بھیج سکتے ہیں۔ ...

Translate

Popular posts

صفحہ دیکھے جانے کی کل تعداد

تمام حقوق محفوظ ہیں

قیمتی باتیں